Posts

Showing posts from September, 2018

نصیب

Image
Short Story by Nadeem Alam اڈے پر بیٹھا ہوا فقیر محمد اپنے نصیب کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ کل بھی دیہاڑی نہیں لگی تھی اور آج  بھی آدھا دن انتظار میں گزر چکا تھا۔ بھوکے پیٹ فقیر محمد نے مایوسی کی اتھا گہرائیوں میں اترنا شروع کر دیا۔ وقت کے دھارے کو الٹا چلاتا وہ بیس سال پیچھے پہنچ گیا۔ دسویں جماعت کے بورڈ کا امتحان تھا اور فقیر محمد ساری رات بیٹھا انگریزی کے پرچے کی تیاری کرتا رہا تھا۔ تھوڑی دیر آنکھ  لگ گئی تو فجر کی جماعت نکل گئی۔ فقیرمحمد پانچ وقت کا پکا نمازی تھا۔ مولوی صاحب اسکو بہت پسند کرتے تھے اور اکثر اسے نصیحت کرتے رہتے تھے۔ فقیرمحمد کا والد فوت ہوچکا تھا اور وہ اپنی ماں کا واحد سہارا تھا۔ اسکی ماں لوگوں کے برتن مانجھ کر اسے اور اسکی چھوٹی بہن کو پڑھا رہی تھی۔ فقیرمحمد بھی دوسرے بچوں کی طرح پڑھ لکھ کر بڑا انسان بننا چاہتا تھا اسلئے وہ خوب دل لگا کر پرچوں کی تیاری کررہا تھا۔ دوسرے دن بھی جب فقیر محمد کی فجر کی جماعت رہ گئی تو ظہرکی نماز کے بعد مولوی صاحب نے اسے روک لیا۔ سب نمازیوں کے جاتے ہی مولوی صاحب نے اسے اپنے قریب بلایا اورصبح مسجد نہ آنےکی وجہ دریافت کی۔ فقیر محمد

قیمت

Image
Short Story by Nadeem Alam "ہرچیزکی قیمت ہوتی ہے۔ بولو کیا قیمت ہے تمھاری؟" اس نے بہت رعونت سے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔ "میں کوئی چیز نہیں ہوں خان۔ میں ایک انسان ہوں۔" میں نے غصے سے اپنے آفس میں کھڑے کامران خان کو جواب دیا اور ساتھ ہی گھنٹی بھی بجا دی تاکہ گارڈ کو بلوا کر اس بد تمیز شخص کو باہر پھنکوا دوں۔ اس سے پہلے کہ باہر سے کوئی آتا، کامران خان نے اپنا کارڈ میری میز پر چھوڑا اور یہ کہتے ہوئے خود ہی چل دیا: "ہر نیا آنے والا آفیسر شروع میں یہی کہتا ہے۔ جب اپنی قیمت کا تعین کرلوتومجھے کال کرلینا۔" کامران خان کا وزیٹنگ کارڈ میری لمبی چوڑی میز کے پرلے کونے پر پڑاجیسے میرا منہ چِڑا رہا تھا۔ سارا دن اپنے کام میں مصروف رہا۔ کبھی فون، کبھی مہمان اور فائلوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔   بیچ بیچ میں جب بھی میری نظر اس کارڈ پر پڑتی تو میرے کانوں میں کامران خان کی آواز گونگجنے لگتی: "جب اپنی قیمت کا تعین کرلوتومجھے کال کرلینا۔" جب اپنی قیمت کا تعین کرلوتومجھے کال کرلینا۔" جب اپنی قیمت کا تعین کرلوتومجھے کال کرلینا۔" او

قربانی

Image
Short Story by Nadeem Alam شازیہ کا آج بی اے کا آخری پرچہ تھا۔ وہ بہت خوش تھی۔ اس کے سارے پرچے اچھے ہو ۓ تھے اوراسے ایم اے میں سکالرشپ ملنے کی پوری امید تھی۔ دوستوں سے الودآعی ملاقات کرکے وہ جونہی امتحانی مرکز سے باہر نکلی تو سامنے ہی اپنے کالج کی ٹیچرمسزعلی مل گئیں۔ شازیہ نےانہیں سلام کیا۔ مسزعلی نے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا: " شازیہ، پرچے کیسے ہوئے ہیں؟"   شازیہ مودبانہ انداز میں بولی: " مس، بہت اچھے ہوئے ہیں۔ آپ کیسی ہیں؟ بہت دنوں بعد نظرآئی ہیں آپ!" مسزعلی نے مسکرا کر شازیہ کو دیکھا اور معنی خیزانداز میں بولیں: "تمھاری یہ شکایت بھی جلد دور ہو جائے گی۔" یہ کہہ کر وہ چل پڑیں۔ شازیہ کو بات تھوڑی بہت توسمجھ آ گئی اسلیئے وہ شرما سی گئی۔ مسزعلی، شازیہ کے محلے میں رہتی تھیں اورانہیں شازیہ بہت اچھی لگتی تھی۔ انہوں نے چپکے سے اسے اپنی بہوچن لیا   تھا اور تو اور مسزعلی نے اپنے بیٹے عدنان سے ہاں بھی کروا لی تھی۔ اب تو صرف رشتہ مانگنے جانا تھا اور مسزعلی کو پورا یقین تھا کہ وحید صاحب اتنے اچھے رشتے سے کبھی انکار نہیں کریں گے۔ حال ہ

Who Let the Dogs Out

Image
Short Story by Nadeem Alam Inspector Imran was recently transferred to a small police station in District Badin. He was a professional police officer but did not stay at one place for more than six months. The reason was his inability to work with local political elite and his refusal to follow illegal instructions and unjustified orders of his higher echelons. He had done masters in criminal psychology from a renowned university and had solved many complicated cases in the past. He was now just killing time at a place where there was hardly any worthwhile activity, what to talk of crimes. After getting bored for full one month, Inspector Imran found a new hobby. He always had a passion for the pets and appreciated his friends who owned beautiful thorough bread dogs. So he spread a word around that he needs a dog or two. Within a couple of weeks, a local Landlord brought two ferocious wild hounds to the police station. Although Inspector Imran did not approve of them but asked

تیرے در پر صنم چلے آئے

Image
Short Story by Nadeem Alam تمنا اورحسیب کے بیچ ایک دنیا حائل ہوچکی تھی۔  اس دنیا کے مرکزی کردار کوئی اور نہیں اُن کے اپنے والد صاحبان تھے۔ بات زیادہ پرانی نہیں۔ یہی کوئی دو سال پہلے تک سب کچھ اچھا چل رہا تھا۔ شھزاد چودھری اورکمال خان دوست کم اور بھائی زیادہ گردانے جاتے تھے۔ کاروبار تو دونوں کا مشترکہ تھا ہی، گھر بھی دونوں نے ساتھ ساتھ ہی بنایا تھا۔ اور تو اور بیچ والی دیوار میں بغیرکنڈی کے دروازہ بھی لگا چھوڑا تھا تاکہ ایک دوسرے کے گھر آمدورفت میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ اوراب اس تعلق کو مذید مضبوط کرنے کے لیے دونوں دوستوں نے اپنے بچوں کا رشتہ بھی طے کر دیا تھا۔ شہزاد صاحب کی بیٹی تمنا اور کمال صاحب کا بیٹا حسیب، دونوں ہی اپنے والدین کی اکلوتی اولادیں تھیں۔ تمنا ڈاکٹری کے آخری سال میں تھی اور حسیب اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کرنے میں مصروف تھا۔ برسوں سے ساتھ ساتھ گھروں میں رہ رہے تھے لیکن بچوں کا آپس میں ملنا جلنا کم ہی تھا۔ دونوں اپنی ہی دنیا میں مگن رہتے تھے۔ زبردستی کے رشتے پر پہلے پہل تو دونوں نے خوب احتجاج کیا۔ جب بھوک ہڑتال سے لے کربھاگ جانے تک کی دھمکی کام نہ آئی تودونوں