قربانی
شازیہ کا آج بی
اے کا آخری پرچہ تھا۔ وہ بہت خوش تھی۔ اس کے سارے پرچے اچھے ہوۓ تھے
اوراسے ایم اے میں سکالرشپ ملنے کی پوری امید تھی۔ دوستوں سے الودآعی ملاقات کرکے
وہ جونہی امتحانی مرکز سے باہر نکلی تو سامنے ہی اپنے کالج کی ٹیچرمسزعلی مل گئیں۔
شازیہ نےانہیں سلام کیا۔ مسزعلی نے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا:
" شازیہ، پرچے
کیسے ہوئے ہیں؟"
شازیہ مودبانہ انداز میں بولی: " مس، بہت
اچھے ہوئے ہیں۔ آپ کیسی ہیں؟ بہت دنوں بعد نظرآئی ہیں آپ!"
مسزعلی نے مسکرا
کر شازیہ کو دیکھا اور معنی خیزانداز میں بولیں:
"تمھاری یہ
شکایت بھی جلد دور ہو جائے گی۔"
یہ کہہ کر وہ چل پڑیں۔
شازیہ کو بات تھوڑی بہت توسمجھ آ گئی اسلیئے وہ شرما سی گئی۔
مسزعلی، شازیہ
کے محلے میں رہتی تھیں اورانہیں شازیہ بہت اچھی لگتی تھی۔ انہوں نے چپکے سے اسے
اپنی بہوچن لیا تھا اور تو اور مسزعلی نے
اپنے بیٹے عدنان سے ہاں بھی کروا لی تھی۔ اب تو صرف رشتہ مانگنے جانا تھا اور مسزعلی
کو پورا یقین تھا کہ وحید صاحب اتنے اچھے رشتے سے کبھی انکار نہیں کریں گے۔
حال ہی میں وحید
صاحب کی بیگم کا انتقال ہوا تھا۔ دو ان کے
بچے تھے، فراز اور شازیہ۔ مسزعلی جانتی تھی کہ وحید صاحب خود بھی بیمار رہتے ہیں
اسلیئے وہ جلدازجلد اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کی کوشش میں ہیں۔ مسزعلی کواس
طرح کی خبریں پینوسے ملتی رہتی تھیں جو ان دونوں کے گھرمیں کام کرتی تھی۔ مسزعلی
کا ارادہ تھا کہ وحید صاحب کے ہاں کرتے ہی بس چٹ منگنی پٹ بیاہ کرکے شازیہ کو اپنی
بیٹی بنا لیں گی اوراگراس نے مذید پڑھنا ہوا تو وہ شادی کے بعد بھی تو پڑھ سکتی
ہے۔ خود انہوں نے بھی تو عدنان کی پیدائش کے بعد ہی ماسٹرز کیا تھا۔ اور شازیہ سے
انہیں پوری امید تھی کہ وہ اس بات پر راضی ہو جائے گی۔
شازیہ کو تو بس
گھر پہنچنے کی جلدی تھی۔ صبح دیرہو رہی تھی اس لئے ابو کو ناشتہ بھی نہ دے سکی
تھی۔ فراز کو وہ بتا کر نکلی تھی کہ ابو کو چائے بنا دینا لیکن اسے پتہ تھا کہ
فراز کم ہی ابو کے کمرے میں جاتا ہے۔ راستے میں ایک میڈیکل سٹور پر رک کر شازیہ نے
ابو کی کچھ دوائیاں لیں جنکی لسٹ اس نے رات کو ہی بنا لی تھی۔ گھر میں داخل ہوتے
ہی وہ سیدھا ابو کے کمرے میں گئی۔ ابو تو سو رہے تھے لیکن کمرے میں ناشتے کے برتن
دیکھ کراسکا ماتھا ٹھنکا۔ پینو اپنا کام کر کے جا چکی تھی۔ اسکو تو ویسے بھی ابو
سخت ناپسند کرتے تھے اسلیئے وہ ابو سے دور ہی رہتی تھی۔ شازیہ نے سوچا چلو فراز کو
بھی ابو کا کچھ خیال آیا۔ ابوکی دوائیاں میز پر رکھنے کے بعد وہ ناشتے کے برتن
اٹھا کرکمرے سے نکلنے ہی والی تھی کہ ابو نے کروٹ بدلی اور ان کی آنکھ کھل گئی۔
شازیہ نے ابو کوجاگتے دیکھ کرجَھٹ سلام کیا تو وہ تھوڑا سا کھانستے ہوئے اٹھ کر
بیٹھنے کی کوشش کرنے لگے۔ شازیہ نے فوراً برتن واپس میز پر رکھے اور اپنے ابو کو
سہارا دے کر اوپراٹھایا۔ انکی کمر کے پیچھے دو سرہانے رکھ کرانہیں آرام سے ٹیک لگا
کر بیٹھا دیا۔ پھر کھڑے کھڑے ہی ابو سے ان کی طبعیت کا پوچھا اور انکے جواب دینے
سے پہلے ہی وہ ناشتے کے برتن دوبارہ اٹھا کر نکلنے لگی۔ اتنی بے مروت تووہ کبھی نہ
تھی۔ اصل میں آج آخری پرچہ تھا اور مشکل بھی تھا اسلئے وہ پچھلی رات دیر تک پڑھتی
رہی تھی۔ صبح اٹھنے میں کافی دیرہوگئی اور وہ بس اپنا عبایا اٹھا کر نکل گئی تھی۔
ورنہ تو وہ ہمیشہ صبح کی نمازپڑھ کردوپہرکا کھانا بناتی تھی پھرابوکا اور فراز کا
ناشتہ بنا کر ہی کالج جاتی تھی۔ اب توایک بجنے کو تھا اورشازیہ کو دوپہر کا کھانا
بنانے کی جلدی تھی۔ اسے پتا تھا کہ ابو کے پاس بیٹھ گئی تو آدھ پون گھنٹہ تواورنکل
جائے گا۔ ابھی وہ برتن اٹھا کردروازے کے طرف مڑی ہی تھی کہ ابو کی آواز آئی:
"بیٹا سنو!
میں نے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔"
شازیہ پیچھے مڑی
اور تھوڑی فکرمندی سے بولی:
"ابو خیر
تو ہے۔ یہ فراز صبح آپ کو کوئی الٹی سیدھی بات تو نہیں کرکےگیا!"
شازیہ کے ہاتھ
میں پکڑے ناشتے کے برتن اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
وحید صاحب اپنی
بیٹی کی ذہانت کے قائل تو تھے ہی، اسلئے بات کو بدلتے ہوئے بولے:
"تمھارا
امتحان کیسا جارہا ہے۔ بلکہ آج تو شائد تمھارا آخری پرچہ تھا، کیسا ہوا؟"
شازیہ نے برتن واپس میز پر رکھےاوربیٹھتے ہوئے بولی:
"ابوآپ کو
پتا ہے پرچےتومیرے اچھے ہی ہوتے ہیں اس لئےآپ وہ بات پوچھیں جوآپ پوچھنا چاہ رہے
تھے۔"
چارونچار وحید
صاحب کواصل بات کرنا ہی پڑی:
"بیٹا،
فراز اپنےآفس میں کام کرنے والی ایک لڑکی صائمہ سےشادی کرنا چاہتا ہے۔" اتنا
کہہ کر وحید صاحب چپ کر گئے۔
"تو کرے نا
شادی، کس نے روکا ہے اسے!" شازیہ ابو کوسوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی۔
"لڑکی تو
راضی ہے لیکن اسکے گھر والوں نے ایک عجیب تقاضہ کر رکھا ہے۔"
"کس طرح کا
تقاضہ،ابو؟"
"بیٹا، وہ
لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم اپنی بیٹی کی شادی وہاں کریں گے جو اپنی بیٹی ہمارے بیٹے سے
بیاہیں گے۔"
"آپ کا
مطلب ہے وٹہ سٹہ کی شادی!" شازیہ نےبہت سارے ڈرامے دیکھ رکھے تھے اور وہ
جانتی تھی کہ اس طرح کے رشتے کبھی زیادہ دیر نہیں چلتے۔ پھرابھی تو وہ پڑھنا چاہتی
تھی اور مسز علی بھی تو اس کو اشاروں کنایوں میں بہت کچھ بتا چکیں تھیں۔
وحید صاحب نے
کوئی جواب نہ دیا تو شازیہ پھر بولی:
"تو آپ نے
کیا کہا؟ آپ نے منع کر دیا نہ ابو! بولیں نا چپ کیوں ہیں آپ؟" شازیہ اب
روہانسی ہوچکی تھی۔
اب کے وحید صاحب
بولے تو بولتے ہی چلے گئے:
"میں
کیاکہوں بیٹا۔ ایک ہی تو تمہارا بھائی ہے اور و ہی تو یہ گھر چلا رہا ہے۔ میری
پنشن کے روپوں سے تو بمشکل میری دوائیوں کا خرچہ ہی نکلتا ہے۔ گھر کا کرایہ،
کھانےپینے کےاخراجات، کپڑے،تمھاری کتابیں،کام والی کی تنخواہ، بجلی گیس کا بل، یہ
سب فراز ہی تو دیتا ہے۔ اور صائمہ کا بھائی افتخار اچھا لڑکا ہے۔ فراز بتا رہا تھا کہ میٹرک پاس ہے
اور تین بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہے اس لئے ماں باپ کا بہت لاڈلا ہے۔ کپڑے کا
کاروبار ہے انکا۔ روپےپیسےکی ریل پیل ہے۔"
وحید صاحب ایک
لمبی سانس لے کر پھر بولے:
"تمھارا
بھائی توایک مہینےسے میرے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ اس نے تمھارا امتحان ختم ہونے کی مہلت
دی تھی۔"
"امتحان تو
میرا اب شروع ہوا ہےابو۔" شازیہ یہ کہہ کرکسی قربانی کے جانور کی طرح سر
جکائے قربان گھاٹ کی طرف چل پڑی۔
باورچی خانے میں
پیازکاٹتے ہوئے شازیہ اپنی امی کو یاد کرکے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ امی اسکو کبھی
پیاز نہ کاٹنے دیتی تھیں۔ آج وہ ہوتیں تو کبھی یہ شادی بھی نہ ہونے دیتیں۔
**************
"ایک توآپ نے منے کو بہت بگاڑ دیا ہے۔ میری
کوئی بات نہیں سنتا۔" وحید صاحب کی بیگم شکائتی اندازمیں بولیں۔
"کیا کروں
فراز کی ماں، تمہیں تو پتہ ہے یہ میری جان کا ٹکڑا ہے۔"
"آپ اس کو
آفس بھی ساتھ لے جایا کریں۔"
"دل تو
میرا بھی یہی کرتا ہے لیکن آفس رولز کی وجہ سےمجبور ہوں۔"
وحید صاحب یہ
کہہ کر فراز کواپنی کمرپر بٹھائے پورے گھر کے چکر لگانے لگے۔ فراز کو بھی اپنے ابو
کی کمر پر سواری کرنا بہت اچھا لگتا تھا۔ روز دفتر سے واپسی پر یہ شوچلتا تھا اور
چھٹی والے دن توپورا دن ہی دونوں دھماچوپڑی مچائے رکھتے تھے۔ فرازچارسال کا ہو گیا
تھا لیکن ابھی اس نے سکول جانا شروع نہیں کیا تھا۔ وحید صاحب کی بیگم کی خواہش تو
تھی کہ اس سال فراز کومحلے کے سکول میں ڈال دیتے لیکن وحید صاحب کا کہنا تھا کہ
ابھی ایک سال اوراس کو بچپنے کے مزے لے لینے دو۔ سکول میں جانے کے بعد تو بچے
کولھوکا بیل بن جاتے ہیں۔ میاں کی بات کچھ اتنی غلط بھی نہ تھی اس لئے فراز کی امی
زیادہ بحث میں نہیں پڑتیں تھیں۔ اور پھر دو مہینے بعد شازیہ کی آمد نے ان کے
گھرمیں چارچاند لگا دئیے۔ فراز کو تو جیسے ہنسنے رونے والی گڑیا مل گئی ہو۔ سارا
دن اسکا ہی طواف کرتا پھرتا اور اسکو اٹھانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیتا۔
یہی سب سوچتے
سوچتے وحید صاحب کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اتنا پیار تو کرتا تھا اپنی بہن سے۔ سنگدل کیسے ہو گیا۔ وقت کتنا بدل دیتا ہے انسان کو۔
"ابو کھانا
کھا لیں۔" وحید صاحب کی سوچوں کا تسلسل شازیہ کی آواز سے ٹوٹ گیا۔
"بیٹا رہنے
دو، دل نہیں کر رہا۔"
"ابو آپ
فکر نہ کریں۔ جیسا بھائی کہتا ہے آپ ویسا ہی کریں۔" شازیہ کھانے کی ٹرے میز پررکھ کربیڈ کے پائنتے پر ٹک
گئی۔ "مجھےآپ سے کوئی گلہ نہیں ابو۔"
وحید صاحب نے
اطمینان کا سانس لیا اور بیٹی سے نظریں چراتے ہوئے ٹرے اٹھا کراپنے سامنے کرلی۔
کھانا کھاتے ہوئے وحید صاحب سوچنے لگے کہ بعض اوقات انسان روٹی کو نہیں بلکہ روٹی
انسان کو کھا جاتی ہے۔
************
"بہواب کتنے دن تمھارے نخرے برداشت کریں۔
اس گھر میں سب کو کام کرنا پڑتا ہے اورکون سے تم نوکر چاکر ساتھ لائی ہو جوتمھاری
جگہ کام کریں گے۔ جہیزتک تو تم لائی نہیں۔ اب کیا اٹھو گی یا میں اندرآوں؟"
آج شازیہ کا سسرال
میں تیسرا دن تھا ۔ صبح چھ بجے اپنی ساس کی آواز پر وہ ہڑبڑاتی ہوئی اپنے کمرے سے
باہر نکلی۔ اٹھی تو وہ حسب عادت چاربجے سے ہوئی تھی۔ نماز اور قرآن پڑھ کرتھوڑا
کمر سیدھا کرنے لیٹ گئی تھی۔ افتخار تو گھوڑے بیچ کر سویا ہوا تھا۔ وہ ایک
لااوبالی سا نوجوان تھا۔ شازیہ سے چھوٹا تھا۔ پڑھا لکھا بھی واجبی سا ہی تھا۔ اس شادی
میں اس کی مرضی بلکل شامل نہیں تھی۔ وہ کسی اور کو پسند کرتا تھا۔ ماں باپ کو
انکار کی جرأت نہیں تھی اسلئے اسنے یہ شادی کی۔ یہ بات وہ پہلی رات ہی شازیہ کو
بتا کر منہ موڑ کر سو گیا تھا۔ دوسری رات تو وہ آیا ہی اس وقت تھا جب شازیہ صبح کی
نماز پڑھ رہی تھی۔
سسرال میں تیسرے
روز ہی شازیہ کو بتا دیا گیا تھا کہ اس کی حیثیت اِس گھر میں ایک ملازمہ سے زیادہ
نہیں۔ اسکی ساس نے صاف صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ وہ صائمہ کی قیمت کے طور پریہاں
آئی ہے۔ جس دن وہ یہاں سے جانے کا سوچے گی اسی دن وہ لوگ صائمہ کو واپس لے آئیں
گے۔ اِس کے بعد شازیہ کو تمام کام سمجھا دئیے گئے۔ صبح چھ بجے ساس سسر کو ناشتہ
کروانا، پھرگھرمیں موجود تمام بچوں کاناشتہ اورانکے سکول کا لنچ تیار کرنا، گھر کی
صفائی، دوپہراور رات کا کھانا بنانا، برتن اورکپڑے دھلائی حتی کہ چند دنوں بعد کام
والی ماسی جو شازیہ کا ہاتھ بٹاتی تھی اس کو بھی فارغ کر دیا گیا۔
مرتی کیا نہ
کرتی۔ کون سا کام ہوگا جو شازیہ نے اپنے سسرال میں نہ کیا ہو گا۔ لیکن ظلم تھا کہ
بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ شازیہ کے صبح جلدی اٹھنے سے افتخار کو تکلیف ہوتی تھی اسلئےاب
شازیہ کا بستر بھی صائمہ کے کمرے میں لگا
دیا گیاتھا جس پر پہلے ہی چار بچے قابض تھے۔
ایک دن صائمہ جو
اپنے میکےآئی ہوئی تھی اندر کمرے میں اپنی ماں سے کھسرپھسرمیں مصروف تھی کہ
اتفاقاً شازیہ کے کان میں انکی چند باتیں پڑگئیں۔ شازیہ جوساس کے کمرے میں جاڑو
لگانے آئی تھی، صائمہ کی آواز سن کر دروازے میں ہی رک گئی۔ صائمہ اپنی ماں سے کہہ
رہی تھی:
"بڈھا اب
کچھ روز کا ہی مہمان ہے۔ اسکی سب دوائیاں میں نے ادل بدل کی ہوئی ہیں۔ ایک دل کا
دورہ تو پڑ چکا ہے بس دوسرا بھی سمجھیں پڑنے ہی والا ہے۔"
"بیٹی
دیکھنا کہیں فراز کو شک نہ ہو جائے۔" شازیہ کی ساس نےتمبہی
انداز میں کہا۔
"امی، وہ
تو مجھ پراندھا اعتماد کرتا ہے۔" صائمہ پرس سے جیسے کچھ نکال کر اپنی ماں
کودیتے ہوئے پھر بولی:
"یہ لیں
امی پورے پچاس ہزار ہیں۔ کل ہی فراز سے میں نے لیے ہیں۔"
شازیہ اس سے
زیادہ نہ برداشت کر سکی۔ باپ کی تکلیف کا سن کر اسکا دل پھٹا جا رہا تھا۔ آج اتوار
تھا اور افتخار اپنے کمرے میں بےسدھ پڑا تھا۔ شازیہ کسی نادیدہ قوت کے زیراثر
سیدھا اسکے کمرے میں جا پہنچی۔ اندرسے دروازہ بند کرکے اسنے افتخارکو جنجھوڑنا
شروع کردیا۔ افتخارنے پہلےتو ہوں ہاں کرکے کروٹ بدل لی لیکن شازیہ کے مستقل ہلانے
سے آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا۔ شازیہ کو سامنے دیکھ کر غصے سے بولا:
"کیا تکلیف
ہے تمہیں، کیوں اٹھایا ہے مجھے؟"
شازیہ ہاتھ
باندھ کر بولی:
"ہماری
شادی کوتین مہینے ہوگئے ہیں۔ میں نے آج تک تم سے کچھ نہیں مانگا۔ صرف میری ایک
فرمائش پوری کردو ۔ زندگی بھر تمھاری غلام بن کر رہوں گی۔"
"غلام تو
تم اب بھی ہومیری۔" افتخاربڑی رعونت سے بولا۔ اسے اب اپنی روتی بیوی جو ہاتھ
جوڑ کرسامنے کھڑی گھڑگھڑا رہی تھی اسکو ستانے میں مزا آنے لگا۔
"تم جو
کہوگے میں وہ کروں گی۔" شازیہ ایک دفعہ پھراپنے مجازی خدا کی منت کرتے ہوئے
بولی۔
"اچھا تو
مجھے دوسری شادی کی اجازت دو گی!" افتخار نے تنزیہ لہجے میں پوچھا۔
شازیہ نے صرف
ایک لمحے کوسوچا اور پھر بولی:
"تم پہلے
ہی کب میرے ہو۔"
"تواس کا
مطلب ہے تمہیں میری دوسری شادی پرکوئی اعتراض نہیں؟"
"میری طرف
سے بے شک تم دوسری کیا تیسری اور چوتھی شادی بھی کرسکتے ہو۔"
افتخارکی خوشی
کی انتہا نہ رہی۔ اس سے پہلے وہ دو تین دفعہ اس موضوع پر شازیہ سے بات کرچکا تھا
لیکن ہر بار اسکو کورا سا جواب ملا تھا۔ اب کے اسنے ایک فاتحانہ مسکراہٹ سے پوچھا:
"بولو کنیز
کیا مانگتی ہو؟"
"مجھے
پلیزصرف ایک بارمیرے ابو سے ملوا لاو۔"
افتخارکا ایک دم ماتھا ٹھنکا۔ امی نے اسے سختی
سے منع کیا ہوا تھا کہ شازیہ کوہرگزاسکےمیکےنہیں لےکرجانا۔
افتخار کو سوچ
میں ڈوبا دیکھ کر شازیہ نے ایک اور کاری وار کیا:
"اگر تم
مجھے ابو سے ملوانے نہیں لے کر جاو گے تو میں بھی تمہیں دوسری شادی کی اجازت نہیں
دوں گی اور اگر تم نے میری مرضی کے بغیر دوسری شادی کی تو میں عدالت میں تمہارے
خلاف کیس کر دوں گی۔ پھرتم اپنی بقیا زندگی جیل میں گزارنا۔"
افتخارکےناتجربہ
کار ذہن کے لئے اتنی دھمکی بھی کافی تھی۔ پھرکچھ سوچ کر بولا:
"لیکن میں
امی کو کیا بتاوں کہ تمھیں لے کر کہاں جا رہا ہوں!"
شازیہ نے تو
جیسے سب کچھ پہلے سے سوچ رکھا تھا، فوراً جواب دیا:
"امی کو
کہنا ڈاکٹر کے پاس جا رہے ہیں۔ وہ بلکہ الٹا خوشی خوشی تمہیں پیسے بھی دیں
گی۔"
افتخارکوکچھ
سمجھ نہ آیا لیکن تھوڑی دیربعد جب وہ امی کے پاس سے لوٹا تو بہت خوش تھا۔ ہاتھ میں
پانچ ہزار بھی پکڑے ہوئے تھا۔ آتے ہی انتظار کرتی شازیہ کو آنکھ مار کر بولا:
"چلوچلو اب
وقت ضائع نہ کرو۔ امی نے تاکید کی ہےکہ کسی اچھے ڈاکٹرکےپاس جانا ہے۔"
شازیہ کی خوشی
کی انتہا نہ رہی۔ جانے کو تو وہ بغیر اجازت بھی نکل کرجا سکتی تھی لیکن وہ کوئی
سین نہیں بناناچاہتی تھی۔ وہ یہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ صائمہ ہوشیار ہو
جائےاورتمام ثبوت ضائع کر دے۔ صائمہ ابھی تک امی کے کمرے میں تھی۔ شازیہ کو پورا
یقین تھا کہ فراز صائمہ کویہاں چھوڑ کر واپس گھر ہی گیا ہوگا۔ اِتنی صبح وہ کہیں
اور تو جا نہیں سکتا تھا اورپھرابو کو بھی گھر میں اکیلا زیادہ دیر نہیں چھوڑ سکتا
تھا۔ اسکے باوجود افتخار کے پیچھے موٹرسائکل پر بیٹھی وہ دل ہی دل میں یہ دعا
مانگے جا رہی تھی کی اللہ کرے فراز گھر پر ہی ہو۔ راستے میں افتخار نے شازیہ کو
متعدد بار کہا کہ کسی بھی صورت امی کو یا صائمہ کو پتا نہ چل پائے کہ تم اپنے ابو
سے مل کر آئی ہو۔ شازیہ نے ہر بار اسکو مکمل تسلی دی کہ فکر نہ کرو، یہ بات ہرگز
باہر نہیں نکلنے پائے گی اور یہ کہ وہ فراز کو بھی منع کر دے گی کہ اس کی آمد کی صائمہ کو بھنک بھی نہ پڑنے دے۔
تین مہینے بعد
اپنے گھر کے دروازے پر کھڑے ہوئے اسے بڑا عجیب سا لگ رہا تھا۔ گھنٹی بجانے سے پہلے ایک دفعہ پھر اس نے چپکے سے اللہ
میاں سے دعا مانگی کہ فراز گھر پر ہی ہو۔ پہلی گھنٹی پر تو کوئی نہ آیا۔ دوسری اور
پھر تیسری گھنٹی بھی بج کر اسکا منہ چڑانے لگی۔ شازیہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
افتخار نے اس کو چلنے کا اشارہ کیا اور بولا:
"لگتا ہے
گھر میں کوئی نہیں۔ چلو واپس چلیں۔"
شازیہ نے اسے
تھوڑی دیر اور رکنے کا بولا اور ایک دفعہ پھر گھنٹی پر انگلی رکھ کر جیسے اٹھانا
بھول گئی۔ ٹرررررررررررررررررررررررررن۔
افتخار نے اس
بار اسے بازو سے پکڑ کر گھسیٹے ہوئے لے کر جانے کی کوشش کی۔ اسے احساس ہو چلا تھا
کہ شاید اسنے شازیہ کو یہاں لا کر غلطی کی ہے۔
ابھی وہ ایک دو قدم
ہی چلے تھے کہ پیچھے سے دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ یکدم شازیہ اپنا بازو چھڑا کر واپس
بھاگی۔ دروازے میں اپنے بھائی کو کھڑا پا کر وہ اس لپٹ گئی۔ فراز تھوڑا حیران ہوا
لیکن پھر اپنی زاروقطار روتی بہن اور شرمندہ شرمندہ سے بہنوئی کو لے کر گھر کے
اندر آ گیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ گلی میں یہ ڈرامہ کوئی اور دیکھے۔ اسکو تو یہی
بتایا گیا تھا کہ اسکی بہن وہاں بہت خوش ہے اور اپنی مرضی سے اسنے اپنے باپ اور
بھائی سے ناتہ توڑ رکھا ہے اوروہ ان کا منہ بھی نہیں دیکھنا چاہتی۔ اسی لئے فراز
کا بھی اپنے سسرال جانا ممنوع تھا۔
شازیہ کوئی بات
کیے بغیر اپنے بھائی کا ہاتھ تھام کرسیدھا ابو کے کمرے میں جا پہنچی۔ پیچھے پیچھے
افتخار بھی چلا آیا۔ ابو اپنے بستر پرنیم بے ہوشی کی حالت میں لیٹے صدیوں کے بیمار
لگ رہے تھے۔ انہیں اس بات کا احساس تک نہ ہوا کہ کمرے میں کوئی موجود ہے۔ شازیہ نے
ابو کے سرہانے مختلف ڈبے بنا کر رکھے ہوئے تھے جن پر بڑے اور موٹے حروف میں
بیماریوں کے نام لکھ چھوڑے تھے تاکہ ابو بغیر عینک کے بھی اپنی دوائی لے سکیں۔
شازیہ نے سب سے پہلے شوگر کی بیماری والا ڈبہ کھولا اور اس کے اندر سے گلوکوز کی
گولیاں برآمد ہوئیں جن کے کھانے سے شوگر کم ہونے کی بجائے اور زیادہ بڑھتی ہے۔ پھر
اسنے وہ ڈبہ کھولا جس پر بڑا سا دل بنا ہوا تھا اور اس کے اندر سے ایسی گولیاں
نکلیں جو کم بلڈیشر کے مریض کھاتے ہیں اور انکے کھانے سے بلڈپریشر زیادہ ہو جاتا
ہے۔ اتنا تو فراز بھی جانتا تھا کیونکہ وہ خود ایک دوائیوں کی کمپنی میں کام کرتا
تھا۔ اور اب وہ صائمہ کا سارا کھیل بھی سمجھ چکا تھا۔ اس پر یہ حقیقت بھی آشکار ہو
چکی تھی کہ صائمہ اسکے ابو کی اتنی خدمت پر کیوں لگی رہتی تھی۔ بات تھوڑی تھوڑی
افتخار کے پلے بھی پڑ چکی تھی اسلیئے وہ نکلنے کے چکر میں تھا، فوراً بولا:
"چلو صائمہ
ہم اپنے گھر چلتے ہیں۔یہاں کے بکھیڑوں سے ہمیں کیا مطلب"
صائمہ اپنے ابو
کے سرہانے بیٹھتے ہوئے بولی:
"تم جاو، میرے
ابو کو میری ضرورت ہے۔ فلحال میں یہیں رہوں گی۔"
افتخار اب تھوڑا
سخت لہجے میں بولا:
" سوچ لوصائمہ۔
تم جانتی ہو میری امی کو۔ بعد میں تم ان سےکسی اچھے سلوک کی توقع نہ رکھنا۔"
"اچھا سلوک
انہوں نے پہلے کون سا میرے ساتھ رکھا ہوا ہے۔ ایک زرخرید غلام کی زندگی تو گزار
رہی ہوں میں۔ اس سے زیادہ اورکیا برا کر سکتیں ہیں وہ میرے ساتھ۔"
اتنا کہہ کر
شازیہ نے ابو کا سر دباتے ہوئےکن انکھیوں
سے اپنے بھائی کو دیکھا اور پھر بولی:
"میرے
اپنوں نے ہی جب مجھے قربان کر دیا تو تم لوگوں سے کیا شکایت۔"
افتخار کچھ کہنے
ہی والا تھا کہ چپ کھڑا فراز اچانک پھٹ پڑا:
"نکل جاو
افتخار میرے گھر سے۔اس سے پہلےکہ میں پولیس کوبلا کر تم پر اور تمہاری بہن پر اقدامِ قتل کا
مقدمہ درج کرا دوں۔چلے جاو یہاں سے۔"
فراز کی سوئی ہوئی حمیت جاگ چکی تھی۔ اپنے ابو کے ساتھ ہونے
والی زیادتی اور شازیہ کے ساتھ ہونے والا ظلم کا احساس اسے بےچین کیے جا رہا تھا۔
اب تو ابو نے بھی آنکھیں کھول دی تھیں اور سب کچھ سن رہے تھے۔ اپنا ہاتھ اٹھا کر
فراز کو چپ کرایا اور پھربہت ہی کمزورسے لہجےمیں
گویا ہوئے:
"میں نے تم
لوگوں کومعاف کیا افتخاربیٹا۔تم جاو اور
اپنے ماں باپ کو اپنی بہن کی اس گٹیاحرکت کا بتاو۔ اور بہن کوبھی بتا دینا کہ اس گھر کے دروازے اب اس پر بند ہو
چکے ہیں۔"
اتنا کہہ کر ان
کی سانس اکھڑنے لگی۔ شازیہ نے انہیں پانی پلایا
اور بولی:
"بس ابو آپ
کچھ نہ بولیں۔"
"مجھے
بولنے دو بیٹی۔ آج چپ رہنے کا دن نہیں ہے۔"
فراز کی طرف
دیکھ کر ابو کہنے لگے: "قربانی تو
بیٹے دیتے ہیں فراز۔ تم نے تو اپنی خواہش کی سولی پر اپنی بہن کو ہی لٹکا دیا۔ کس
طرح کے بھائی ہو تم؟"
پھر وہ ابھی تک ڈھیٹوںکی طرح کھڑے افتخار سے بولے:
"میں نے
تمھیں ہیرا دیا تھااور تم اس کی قدر نہ کر
سکے۔اب یہ کبھی تمہارے گھر لوٹ کر نہیں آئے گی۔ اور نہ ہی تمہاری بہن کی اب اس گھر
میں کوئی جگہ ہے۔ البتہ اگر فراز الگ ہو کر صائمہ کے ساتھ رہنا چاہے تو اس کی مرضی
ہے۔"
فراز جو اب زمین
پر بیٹھ کر اپنے ابو کے پاوں پکڑ چکا تھا ، نہایت ہی شکستہ اور دکھ بھری آواز میں
بولا:
"مجھے معاف
کردیں ابو۔ میری آنکھیں کھل چکی ہیں۔ صائمہ نے جو اپکی زندگی ختم کرنے کی نیچ حرکت
کی ہےاسکی کوئی معافی نہیں۔میں آج ہی اسکو
طلاق کے کاغذ بیج دوں گا اور میں امید کرتا ہوں کی افتخار بھی میری بہن کو
آزاد کر دے گا ورنہ ہم کورٹ سے خلع لے لیں گے۔"
اب افتخار کے
پاس مزید وہاں رکنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح وہاں سے
نکلتے ہوئے وہ یہی سوچ رہا تھاکہ گھر جا کر امی کو کیا بتائے گا کہ ڈاکٹر نے کیا
کہا۔ اسی دوران گلی میں مسز علی
اب بھی امید لگائے وحیدصاحب کے گھر کو تکتی ہوئی جا رہی تھیں۔
Other Afsanay by Nadeem Alam:
Tere Dar Per Sanam
Qeemat
Intezar
Thanks
ReplyDelete👍👍👍good effort
ReplyDeleteThanks bro
DeleteVery nice story, closer to life. End is really good.
ReplyDeleteThanks dear.
Deleteبہت خوب ندیم آخر تک اس کہانی نے اپنے سحر میں جکڑے رکھا
ReplyDeleteThanks.
DeleteRealism story sir
ReplyDeleteThanks dear
Deleteقربانی اور بلیک میلنگ میں جو فرق ہوتا ہے ہمارے ہاں اسجواسکو ایک جگہ ملا دیا گیا ہے۔۔۔بتیاں اللہ کی رحمت اور بہت پیار کرنی والی ہوتی ہیں۔۔۔قربانی کا دنبہ نہیں کہ جب چاہا قربان کر دی جاہیں۔۔۔بہت گہرائ سے آپ نے اس پہلو کو اجاگر کیا ہے۔دنیا آج دوسرے سیاروں پر دھیرے ڈالنے کا سوچ رہی ہے اور ہم ابھی انہی جنجتو سے نہیں نکلے۔۔۔
ReplyDeleteThanks for you comments. You are right.
DeleteWatta satta ki shadi r hmre muashry me paey janay walay kch neech logo ka bht umdgi se ap ne apni story me tazkira kiya h. Once again nicely written story Sir.
ReplyDeleteThanks for encouraging comments.
Deleteبہت خوب لکھا ہے ۔سب سے اچھی بات اس افسانے کا اختتام ہے ۔
ReplyDeleteThanks
DeleteGoood one.
ReplyDeleteعورت قربانی ہی تو دیتی آئی ہے ہمیشہ سے، کبھی مرد کی انا کی خاطر ،کبھی دولت کے لیے ۔ ہمارے دیہات میں آج بھی یہی چلن ہے کہ عورت گھر کے سربراہ کی خواہشات، جھگڑوں اور فیصلوں کی تابع ہوتی ہے ۔ بچیاں " ونی " کردی جاتی ہیں ۔ گھر کے مرد خود تو " بے نمازی " ہوں گے مگر عورتیں " نیک سیرت " مانگیں گے ،خود نکمے ہوں گے مگر عورتوں سے بیگار لیں گے اور اُن پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑیں گے ۔
ReplyDeleteمگر عورت پھر بھی " شازیہ " ہی رہتی ہے اور باپ کی محبت اسے میکے کھینچ لاتی ہے ۔
یہ تو ہوا عورت کا عمومی روپ ۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔
لیکن " صائمہ " بھی تو ایک عورت ہے ۔ لہذا عورت بھی ظالم ہوسکتی ہے، حریص ہوسکتی ہے اور گھروں کو برباد کر سکتی ہے ۔ ایسے میں ہماری ترجیح ہر لمحہ " انسانیت " ہونی چاہیے ۔ سب سے بڑی انسانیت یہ ہے کہ عورت کو دولت کی حرص اور نام نہاد غیرت کے برعکس اس گھر میں بیاہنا چاہیے جس کی وہ متمنی ہو ۔ اور عورت کا سب سے بڑا اخلاق یہ ہے کہ وہ جس گھر میں رہے، اسے اپنا گھر سمجھے ۔ تبھی اس دُنیا میں " شازیہ " اور " صائمہ " سکون کی زندگی بسر کرسکتی ہیں ۔ ورنہ زندگی اتنی ظالم ہے کہ ایک دن انسان کو چارپائی پر پہنچا دیتی ہے اور وہ جب کھانستا ہے تو پسلی میں اٹھنے والی درد کی ایک ایک ٹیس جوانی کی نادانیوں کو یاد کرتی ہے ۔
اچھا لکھا ہے میجر صاحب ۔ آپ کے افسانے بہتر ہوتے جارہے ہیں !
بہت شکریہ جناب۔
Delete