قیمت
"ہرچیزکی قیمت ہوتی ہے۔ بولو
کیا قیمت ہے تمھاری؟" اس نے بہت رعونت سے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔
"میں کوئی چیز نہیں
ہوں خان۔ میں ایک انسان ہوں۔" میں نے غصے سے اپنے آفس میں کھڑے کامران خان کو
جواب دیا اور ساتھ ہی گھنٹی بھی بجا دی تاکہ گارڈ کو بلوا کر اس بد تمیز شخص کو
باہر پھنکوا دوں۔
اس سے پہلے کہ باہر سے کوئی
آتا، کامران خان نے اپنا کارڈ میری میز پر چھوڑا اور یہ کہتے ہوئے خود ہی چل دیا:
"ہر نیا آنے والا آفیسر
شروع میں یہی کہتا ہے۔ جب اپنی قیمت کا تعین کرلوتومجھے کال کرلینا۔"
کامران خان کا وزیٹنگ کارڈ
میری لمبی چوڑی میز کے پرلے کونے پر پڑاجیسے میرا منہ چِڑا رہا تھا۔ سارا دن اپنے
کام میں مصروف رہا۔ کبھی فون، کبھی مہمان اور فائلوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔ بیچ بیچ میں جب بھی میری نظر اس کارڈ پر پڑتی
تو میرے کانوں میں کامران خان کی آواز گونگجنے لگتی:
"جب اپنی قیمت کا تعین
کرلوتومجھے کال کرلینا۔"
جب اپنی قیمت کا تعین کرلوتومجھے
کال کرلینا۔"
جب اپنی قیمت کا تعین کرلوتومجھے
کال کرلینا۔"
اور پھراپنی بے توقیری کے
احساس سے میرا خون کھولنے لگتا۔ اتنے میں کوئی کام آ دھمکتا تو اس میں مصروف ہو
جاتا لیکن سارا دن طبعیت بوجھل سی رہی۔ گھر جاتے ہوئے بھی یہی سوچ رہا تھا کہ اس
دو ٹکے کے انسان نے مجھے خریدنے کی کوشش کیسے کی۔ شام کوگھر پہنچا تو پتہ چلا کہ بیگم
صاحبہ تو اپنی دوستوں کے ساتھ باہر نکلی ہیں۔ فریش ہو کرملازم کو چائے کا بولا اورٹی
وی لاونج میں آکر بیٹھ گیا تاکہ تھوڑا حالتِ حاضرہ سے آگاہی حاصل کی جائے۔ ریموٹ
کی تلاش میں اِدھرادھر نظریں گھمائیں تو سائید تیبل پر پڑے کچھ بِل اور بچوں کی
فیسیں ہاتھ لگ گئیں۔ بلوں میں بیگم کے کریڈٹ کارڈ کا بل بھی تھا۔ سب ملا کر کوئی
ایک لاکھ سے زیادہ کا خرچہ تھا۔ پچھلے مہینے جو شمالی علاقہ جات کی سیر کو گئے تھے
ابھی تووہ بل بھی ادا کرنا باقی تھے۔ شکر ہے گھر،گاڑی اور ملازم سرکاری ہیں ورنہ تو۔
ابھی انہیں سوچوں میں گم تھا کہ ملازم نے آکر چائے رکھ دی اور سامنے ہاتھ باندھ کرکھڑا
ہو گیا جیسے کچھ کہنا چاہتا ہو۔ میرے اوپر دیکھنے پربولا:
"صاحب ایک بات کرنی ہے
آپ سے!"
"ہاں بولو۔" میں
نے اکھڑے سے لہجے میں کہا۔ ساتھ ہی
چائے کی پیالی منہ سے لگائی اور ریموٹ کا بٹن دبا کر ٹی
وی آن کر دیا۔
"صاحب میری بیٹی کی
شادی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
ٹی وی پر بریکنگ نیوز چل
رہی تھی کہ سرکاری ملازمین کی مراعات میں کمی کا فیصلہ۔ میرا سارا دھیان ٹی وی پر
تھا اورملازم اپنی رام کہانی سنا رہا تھا۔ میری عدم دلچسبی کودیکھتے ہوئے وہ چپ کر
کے باہر نکل گیا۔ اسکے باہر جاتے ہی میں نے سوچا کہ یہ چھوٹے لوگ ہمیشہ اپنی چادر
سے زیادہ پاوں پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور پھر ادھار مانگتے پِھرتے ہیں۔
رات کے کھانے پر بیگم نے اعلان
کیا کہ اگلے مہینے ہونے والی انکی سالگرہ کسی بڑے ہوٹل میں ہونی چاہئے جس میں وہ
تمام فیملی اور فرینڈز کو مدعو کریں گی۔
رات کو بستر پر لیٹے اپنی سوچوں کے گرداب میں پھنسا، میں انجانے میں اپنی قیمت کا تعین کرنے لگا۔
Written By: Nadeem Alam
Tere Dar Per Sanam
Intezar
Qurbani
Pari
Very well written sir, according to our society now a day's.
ReplyDeleteThanks bro
DeleteExcellent depiction of reality.
ReplyDeleteThanks
DeleteExactly as per today's environment
ReplyDeleteکچھ افسانوں میں حقیقت کی جھلک ہوتی ہے اور کجھ حقیقت کو بنا لیتے ہیں افسانے
DeleteCrisp, sharp, vivid and fit to environmenv. Jeetay raho brother.��
ReplyDeleteThanks bro.
DeleteExcellent point and choice of words are superb...
ReplyDeleteشکریہ
DeleteAbsolutely amazing. A silent word of advice for many ----------------
ReplyDeleteThanks bro.
DeleteQeemat aur oqaat tu ek kafan ke b nhi insaan ke mgr dunyia ke arzi zindagi aur lutf ma mubtala ho kr insaan apna app b nelaam kr deta hai
ReplyDeleteبلکل صیح فرمایا اپ نے۔
Deleteدفتر سے چھڑنے والا " قیمت " کا تذکرہ ٹیلی ویژن پر سرکاری ملازمین کی مراعات، شادی کے لیے ادھار رقم اور سالگرہ پر اخراجات تک یوں ہی چلتا رہتا ہے اور انہی بھول بھلیوں میں لفظ " انسان " کہیں کھو کر رہ گیا ہے ۔
ReplyDeleteمادہ پرستی پہ مبنی زندگی پر طنز کے نشتر چلاتا ایک ایسا افسانچہ جو رشتوں کا احساس اجاگر کررہا ہے ۔بہت داد
شکریہ جناب
DeleteThis what a duel personality is , writer has crisply told us in a very few lines. Yes needs have price....no matter who u are ??? who we are... Very good
ReplyDeleteThanks babu.
Delete