پری
ولادمیراناتولی ایک معروف روسی کوہ پیما تھا۔ تیس سال کی عمر تک پہچنے سے پہلے ہی وہ
دنیا کی دس بڑی چوٹیاں سر کر چکا تھا۔ ان دنوں وہ اسی کشمکش میں لگا رہتا تھا کہ
اب کیا کرے۔ ماسکو کے ریڈ سکوائر سے ملحقہ اپنے پینٹ ہاوس میں تیسویں سالگرہ کے
موقع پراس نے اپنے گنے چنے دوستوں اورشہر کی چند چیدہ شخصیات کو مدعو کیا اور کیک
کاٹنے سے پہلے ایک اعلان کر کے لوگوں کو حیران کر دیا۔ سب جانتے تھے کہ اناتولی
اپنی بات کا پکا ہے اور وہ اپنے ارادے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا اس لیے اسے
سمجھانا بےسود تھا۔ کچھ دوستوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور کچھ نے تفِ افسوس
مَلا۔ پارٹی میں موجود بیشترخواتین نے
حیرت کے مارے اپنی انگلیاں چبا
ڈالیں۔ اگلی صبح روس کے تمام اخباروں نے پہلے صفحہ پر جلی حروف میں خبر لگائی:
"ولادمیراناتولی دیومالائی مخلوق پریوں کی تلاش میں ماونٹ قاف کا سفر کرے
گا۔" کچھ نے تو اسے دیوانے کا خواب کہا اور کچھ نے اس معرکے کو اناتولی کی
زندگی کا آخری سفر قرار دے دیا۔
ماونٹ قاف روس کے شمال مغرب میں واقع ایک دشوار گزار پہاڑی
سلسلہ ہے۔ یہ سال کے بارہ مہینے برف سے ڈھکا رہنے کی وجہ سے ابھی تک لوگوں کی
دسترس سے محفوظ تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں سال کے تین مہینے سورج بلکل غائب رہتا ہے
اور باقی نو مہینے بھی دن میں کچھ گھنٹوں کے لیے شکل دیکھاتا ہے۔ اس اَن دیکھے
علاقے کے بارے میں لوگوں نے عجیب و غریب قصے گَھڑ رکھے ہیں۔ اِنہیں کہانیوں میں
پریوں کی داستانیں بھی ہیں جو آپ اور ہم سب نے سن رکھی ہیں۔
اناتولی کی ماں کا تعلق مَرمِنسق سے تھا جو کوہ قاف سے
تقریبا پچاس کلومیٹر پرواقع ایک قصبہ ہے۔ اناتولی کا باپ بھی ایک کوہ پیما تھا اور
کوئی تین دہائیاں پہلے وہ بھی پریوں کی
تلاش میں مَرمنسق گیا تھا۔ اسے پریاں تو
نہ ملیں لیکن وہاں سے وہ اپنے خوابوں کی شہزادی کو لے کر لوٹ آیا۔ اناتولی کی ماں
انستیشیا بہت حسین عورت تھی۔ روس نے اسے پریوں کا ہی درجہ دیا اور بہت عرصے تک وہ
اخباروں کی زینت بنتی رہی۔ حتہ کہ اس پر ایک مشہور فلم بھی بنی جسے ساری دنیا میں
پسند کیا گیا۔ اناتولی جب چھوٹا تھا تو ایک دفعہ اسنے اپنی ماں سے پوچھا:
"ماں، کیا واقعی قاف میں پریاں رہتی ہیں؟"
اس سے پہلے کے ماں کچھ بولتی اناتولی کے باپ نے اس کے سر پر
ہلکی سی چپت لگائی اور کہا:
"پگلے، تیری ماں اصل میں پری ہی تو ہے۔ لیکن یہ بات ہرگزکسی
کو نہیں بتانا۔"
اناتولی نے اپنے ماں باپ سے وعدہ تو کر لیا لیکن اپنے تمام
دوستوں کو اس نے یہ باور کرانے کی بھرپور کوشش کی کہ وہ ایک پری کا بیٹا ہے۔ جب اس
کی بات کسی نے نہ مانی بلکہ الٹا اسکا مذاق اڑایا تو اناتولی نے اپنی توتلی زبان
سے چیخ چیخ کرسب کو بتا دیا کہ وہ بھی ایک دن اپنے باپ کی طرح قاف کے پہاڑ سے ایک
پری لے کر آئے گا۔
اناتولی کوہ قاف کے سفر پر جانے سے پہلے اپنے ماں پاپ سے
ملنے گیا جو اب ماسکو کے ہنگاموں سے دور ایک چھوٹے سے پہاڑی گاوں میں پرسکون زندگی
گزار رہے تھے۔ اناتولی نے جب انہیں اپنا ارادہ
بتایا تو وہ
مسکرا کر رہ گئے۔ انستیشیا نے اپنے بیٹے کو گلے لگایا پھر اسکا ماتھا چوما اور اس کوکامیابی کی دعا
دی۔ اناتولی کے باپ نے بھی اسے گلے لگایا اور اسکے گالوں کو چوما۔ جانے سے پہلے
اسکے باپ نے اسے کہا:
"بیٹا، میں نہیں جانتا کہ قاف میں پریاں ہیں یا نہیں کیونکہ میں قاف پر گیا ہی نہیں تھا۔
مجھے میری پری مَرمنسق میں ہی مل گئی تھی۔ لیکن تمھیں اپنی جستجو جاری رکھنی
چاہیے۔ لوگوں کی باتوں سے دل چھوٹا نہیں کرنا۔ اپنے آپ پریقین رکھو۔ میری اور
تمھاری ماں کی دعائیں تمھارے ساتھ ہیں۔"
اناتولی جب اپنے ماں
باپ سے مل کر ماسکو لوٹا تو اس کا حوصلہ بلند تھا۔ اسے یقین ہو چلا تھا کہ قاف
میں پریاں ضرور موجود ہیں ورنہ اس کے والدین اسکو اس مہم پر
جانے سے منع کر دیتے۔ وہ ان سے ملنے بھی یہی بات چیک کرنے گیا تھا۔ اور اب
اسے قاف پرجانے سے کوئی نہیں روک سکتا
تھا۔ اناتولی کو اتنا شک ضرور تھا کہ ہو سکتا ہے وہ لوٹ کر نہ آئے اس لیے وہ تمام
انتظامات کرکے جانا چاہتا تھا۔ اپنے وکیل سے مل کر تمام تفصیلات طے کرنے کے بعد
اناتولی نے سفر کی تیاری شروع کردی۔ مَرمنسق کے واحد ہوٹل میں تین ماہ کے لیے کمرہ
ریزور کروانے کے بعد اناتولی نے مرمنسق کی آخری فلائیٹ میں اپنی نشت بھی بک کروالی۔
اس فلائیٹ کے بعد مرمنسق کا بقیہ دنیا سےرابطہ تین مہینے تک منقطع ہو جاتا ہے۔
اناتولی کو بڑی آسانی سے ہوٹل کا کمرہ بھی مل گیا اور فلائیٹ میں سیٹ بھی کیونکہ
ان دنوں اس علاقے میں کوئی پاگل ہی جاتا ہے۔ مرمنسق میں اگلے تین ماہ میں موسم
شدید سرد ہوتا ہے جو منفی بیس ڈگری تک چلا جاتا ہے اور اس عرصے میں سورج بھی طلوع
نہیں ہوتا۔ اس دوران مرمنسق کے لوگ یہاں سے نکل کر جنوب میں اپنے عزیز رشتہ داروں
کے گھر چلے جاتے ہیں اور قصبہ تقریبا خالی ہو جاتا ہے۔ روایات کے مطابق
یہی وہ وقت ہوتا ہے جب پریاں پہاڑ سے اترتی ہیں۔
مرمنسق جانے والی پروازایک چھوٹے جہاز کی تھی جوماسکو سے
اڑی تو کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ راستے میں مسافر اترتے چڑھتے رہے۔ جب پرواز اپنی
آخری منزل کی طرف روانہ ہوئی تو پورے جہاز میں اناتولی اکیلا مسافر تھا۔ دس گھنٹے کے عصاب شکن سفر کے بعد اناتولی کو مرمنسق کےائیرپورٹ سے اپنے ہوٹل تک
پیدل مارچ کرنا پڑی کیونکہ ائیرپورٹ کے باہر کوئی گاڑی موجود نہیں تھی۔ یہیں سے
اسے پتہ چلا کہ جو گنے چنے لوگ یہاں رہ گئے ہیں وہ بھی اگلی صبح جانے والٰی آخری
بس سے نکل جائیں گے۔ ائیرپورٹ سے قصبے کو جانے والی واحد سڑک پر وہ چلتا گیا۔ اپنے
سامان کو گھسیٹتا ہوا وہ تقریبا آدھ گھنٹے کی مسافت کے بعد قصبے میں داخل ہوا۔ اس
وقت تمام قصبہ ایک آسیب زدہ علاقے کا منظر پیش کر رہا تھا جہاں نہ کوئی بندہ اور
نہ بندے کی ذات نظرآرہی تھی۔ سورج کی زرد پھیکی روشنی ایک خوابناک ماحول تخلیق کررہی تھی لیکن اس سے لطف اٹھانے
والا کوئی نہیں تھا۔ سردی انتہا کی تھی لیکن اناتولی نے مناسب لباس زیبِ تن کیا
ہوا تھا۔ اناتولی کو فکر لاحق تھی کہ کہیں ہوٹل بھی بند نہ ہو گیا ہو۔ قصبے کی
درمیانی سڑک پر چلتے ہوئے اسے دور سے ہی ہوٹل کی عمارت نظر آگئی جس کے باہر بڑے
حروف میں ہوٹل کا نام تحریر تھا۔ اور اس وقت وہ اکیلی عمارت تھی جس میں روشنی چھن
چھن کر باہر آ رہی تھی۔ اناتولی کی جان میں جان آئی۔ وہ تیز قدم اٹھاتا ہوٹل کی
جانب چل پڑا۔
ہوٹل کا اس وقت وہ واحد مکین تھا۔ اناتولی کی حیرت کی انتہا
نہ رہی جب اگلی صبح ہوٹل کے مالک نے جو ایک بوڑھا سا شخص تھا اس کو ہوٹل کی چابی
پکڑائی اور قصبے سے جانے والی آخری بس میں بیٹھ کر روانہ ہو گیا۔ اس سے اگلے دو دن
میں اناتولی نے پورے قصبے کا سروئے کر کے پتہ چلایا کہ اس وقت وہاں اس کو ملا کر
کل پانچ لوگ ہیں۔ ان میں ٹام اور الیگزینڈر جو ائیرپورٹ پر تھے، آندرے بجلی گھر کی رکھوالی پر تھا اور
بوڑھا وکٹر جو آدھی صدی پہلے پریوں کی تلاش میں مرمنسق آیا
تھا اور اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا۔ تب سے اب تک وہ مر منسق کی گلیوں میں موسم
اور لباس سے بے نیاز ہو کر گھومتا نظر آتا تھا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ بہت سالوں
پہلےایک رات وکٹر کو ایک پری ملی تھی اور وہ پہلی ہی ملاقات
میں اس سے عشق کر بیٹھا ۔ صبح ہونے سے قبل وہ پری وکٹر سےاگلی رات کا وعدہ کر کے
اپنےگھر گئی لیکن واپس لوٹ کرنہ آئی۔وکٹر ابھی
تک اسکا انتظار کر رہا ہے اوراسے دیوانہ وار ڈھونڈتا رہتا ہے۔ لوگ تو یہ بھی کہتے
ہیں کہ وہ کوئی مقامی لڑکی تھی جس نے وکٹر سے مذاق کیا تھا۔ یہ سب باتیں اناتولی
کو آندرے نے بتائیں اور اس کو جلد لوٹ جانے کی تلقین بھی کی۔
دسمبر کے تیسرے ہفتے میں اناتولی نے اپنا کوہ پیمائی کا
سامان باندھا اور کوہ قاف کی طرف روانہ ہو گیا۔ سورج کو غروب ہوئے دو ہفتے گزر چکے
تھے۔ موسم انتہائی سرد تھا اور پارہ نقطۂ انجماد سے15 درجےنیچے گر چکا تھا۔ کوہ قاف کے بیس تک پہنچنے میں اسے چار دن لگ
گئے۔ اناتولی سیٹالائٹ فون پر اپنے دوست
فریڈی سے رابطے میں تھا جواناتولی کا مینجر بھی تھا۔ بیس کیمپ پر پہلی رات ہی تیز
ہوا چلنا شروع ہو گئی۔ اناتولی کے پاس موجود موسم کی رپورٹ جو
فریڈی ہر بارہ گھنٹے بعد بھیجتا تھا اس کے مطابق موسم بلکل صاف تھا لیکن
یہاں صورتِ حال بلکل مختلف تھی۔ہوا نے چند ہی گھنٹوں میں ایک طوفان کی شکل اختیار
کر لی۔ اناتولی کا سیٹالائٹ رابطہ بھی
منقطع ہو چکا تھا۔ باہر گھپ اندھیرا اور
برفانی طوفان تھا اور اپنے چھوٹے سے خیمے میں
سکڑا سمٹا بیٹھا اناتولی شاید اپنے آخری لمحات گن رہا تھا۔ اس کا بیٹریوں سے بھرا بیگ بھی طوفان کی نذر ہو چکا تھا۔ اناتولی ایک
نڈر اور بہادر انسان تھا۔ اس کو خراب موسم کی پروا نہیں تھی لیکن روشنی کے بغیر ایک قدم بھی آگے جانا ممکن نہ
تھا۔ پریوں کا خیال دل سے نکال کر اناتولی
اب طوفان کے رکنے کا انتظار کر رہا تھا تاکہ ستاروں کی روشنی میں وہ جانے پہچانے
راستے سے ہوتے ہوئے واپس جا سکے۔ پندرہ
گھنٹے کے طویل طوفان کے بعد جب ہواتھمی تو
اناتولی نے واپسی کی ٹھانی۔ اس وقت تک آسمان صاف ہو چکا تھا اور ستاروں کی روشنی سفید برف سے ڈھکے قاف کو تابناک کر رہی تھی ۔ اناتولی کا سیٹالائٹ فون اب بھی کام نہیں کر رہا تھا۔ فون
کی بیٹری بہت کمزور ہو چکی تھی اور بیٹریوں کا بیگ کوشش کے باوجود بھی اناتولی کو
نہ ملا۔ اناتولی کو صرف ایک تسلی تھی کہ اسکا
جی پی ایس کام کر رہاہے اور
وہ اس کو استعمال کرتا ہوا واپس مرمنسق
پہنچ سکتا تھا۔
اناتولی کی امید کے برخلاف واپسی کا سفر اتنا آسان نہیں نکلا۔طوفان
کا دائرہ بہت وسیع پیمانے تک پھیلا ہوا تھا۔
رستہ اتنا پر پیچ تو نہیں تھا لیکن برف میں دب جانے کی وجہ سے اور پھر
ستاروں کی مدھم روشنی میں اس پر چلنا مشکل ہو رہا تھا۔ اناتولی کو چلے ابھی تھوڑی
دیر ہی ہوئی تھی کہ اسکی نظر راستے میں
برف سے ڈھکی کسی چیز پر پڑی۔ وہ اس کے نزدیک سے گزرا تو ٹھٹک گیا۔ برف میں
آدھی دبی ہوئی چیز میں حرکت ہوئی تھی۔ اناتولی پہلے تو اسے اپنا شک سمجھا لیکن
دوبارہ حرکت پر اناتولی رک گیا۔ وہ اس چیز کے نزدیک نہیں جانا چاہتا تھا کیونکہ
وہ برفانی ریچھ بھی ہو سکتا تھا۔ تھوڑی
دیر تک جب کوئی مزید حرکت نہ ہوئی تو
اناتولی نے وہاں سے جانے کی ٹھانی۔ وہ ابھی دو قدم بھی آگے نہ بڑھا تھا کہ
اسے انسانی آواز سے متشابے کسی کے کراہنے کی صدا سنائی دی۔ اچانک اناتولی کی تمام
حسیں جاگ اٹھیں۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی اور اس خون جمانے والی سردی میں ایک پسینے کی
بوند اسکے ماتھے پر نمودار ہو گئی۔ اپنی
بےترتیب سانسوں کو قابو کرتے ہوئے اناتولی اس برف کے ڈھیر کی طرف بڑھا۔ نزدیک پہنچ
کر اسنے اپنی چھوٹی ٹارچ جیب سے نکالی ۔ جونہی اسنے روشنی کی کرن اس ڈھیر پر ڈالی
تو اس کا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا۔ اسکے رونگھٹے کھڑے ہو گئے اور کافی دیر تک وہ
بےحس و ساکن کھڑا رہا۔ اناتولی کے سامنے ایک حسین وجمیل پیکر برف میں آدھا دبا پڑا
ہوا تھا۔ اناتولی جس کی تلاش میں سرگرداں تھا وہ پری بےیاروبےآسرا اسکے قدموں میں
پڑی تھی۔ وہ شاید طوفان میں پھنس گئی تھی
اور زخمی ہو کر یہاں گر گئی تھی۔ ابھی وہ زندہ تھی اور اناتولی جانتا تھا کہ ایسے
موقع پر وقت کتنا قیمتی ہوتا ہے۔ اسے اتنا پتا تھا کہ سرد موسم کا اثر پری
پر نہیں ہوگا کیونکہ یہ مخلوق تو رہتی ہی برف پوش پہاڑوں پر ہے لیکن کسی اندرونی چوٹ یا خون کے زیاں کا اثر ضرور ان کی زندگی پر ہو
سکتا ہے۔ مذید وقت ضائع کیے بغیر اناتولی
نے بہت احتیاط کے ساتھ زخمی پری کے اوپر سے برف ہٹائی اور اپنے طلاطم خیز جذبات پر
قابو رکھتے ہوئے اسے اپنی سامان والی سلیج پر باندھ دیا۔ واپسی کے چار دن کا سفر
اناتولی نے بغیر رکے دو دن میں طے کیا۔
طوفان کے اثرات مرمنسق تک بھی پہنچے تھے اور یہاں کا بجلی
کا نظام درہم برہم ہو چکا تھا۔ اناتولی نے ہوٹل میں موجود لکڑیوں کا زخیرہ پہلے ہی
دیکھ رکھا تھا۔ زخمی پری کو اپنے بستر پر
شفٹ کرنے کے بعد اناتولی نے کمرے میں روشنی اور حرارت کا بندوبست کیا اور پھر اپنی
مریضہ کی تیمارداری شروع کر دی۔ اناتولی
نے بےہوش پری کا مکمل جائزہ لیا۔ وہ خود ایک تربیت یافتہ نرس تھا کیونکہ کوہ
پیمائی کےدوران کوئی ڈاکٹر ان کے ساتھ نہیں ہوتا اسلئے ہر کوہ پیماہ کو ابتدائی
طبی امداد کا کورس کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اناتولی نے تو باقاعدہ پیرامیڈک کا کورس کر
رکھا تھا۔ پری کے مکمل جسمانی جانچ کے بعد اناتولی کو اندازہ ہو چکا تھا کہ اسکا
طوفان میں گرنے کے باعث ایک پر زخمی ہوا تھا۔ اسی چوٹ کی ہی وجہ سے وہ اڑنے سے
قاصر ہوکر برف میں دب گئی تھی اور شاید
چوٹ کی شدت کے باعث یا برف میں دبنے سےآکسیجن کی کمی کی وجہ سے بےہوش
ہوگئی تھی۔ لیکن وہ ابھی تک بے ہوش تھی اور یہ بات پریشانی کا باعث تھی۔ اناتولی
نے پری کے پر کو جوڑ کر اس پر ڈریسنگ کر دی تھی اور اینٹی بائیوٹک کے انجکشن بھی
لگا رہا تھا ۔ وہ یہ سوچ رہا تھا کہ پتہ نہیں ان دوائیوں کا اثر اس پر ہوتا
ہے کہ نہیں۔
اناتولی کا سیٹالائٹ
فون ابھی تک بند تھا۔ اسکی بیٹری مکمل ختم
ہوچکی تھی ۔ واپس اپنے ہوٹل میں پہنچے اناتولی کو
پورا ایک دن گزر گیا اور وہ تین دن سے بلکل نہیں سویا تھا۔ پچھلے چند
گھنٹوں سے تو وہ مبحوت بیٹھا پری کو تکے
جا رہا تھا۔ اسی اسنا میں اناتولی کی آنکھ
لگ گئی۔ کچھ دیر ہی گزری تھی کہ وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ سامنے بستر پر نظر پڑتے
ہی وہ چھلانگ لگا کر کھڑا ہو گیا۔ اسکا بستر خالی تھا۔ اسنے پری کی تلاش میں پورا
ہوٹل چھان مارا لیکن اسکا کوئی نام و نشان
نہ ملا۔ اناتولی اب ہوٹل کے باہر کھڑا اِدھرادھر دیکھ رہا تھا تو اسکی نظر
سڑک کے پار بیٹھے پاگل وکٹر پر پڑی۔
اناتولی آہستہ آہستہ چلتا وکٹر کے پاس پہنچا تو وکٹرنے آسمان کی جانب اشارہ کیا
اور بولا "وہ لوٹ کر نہیں آئے گی۔" اناتولی
وکٹر کی بات سمجھ چکا تھا۔ وہ تھکے تھکے قدموں سےچلتا ہوٹل میں داخل ہوا
اور اپنے کمرے میں جا کر اپنے بستر پر ڈھیر ہو گیا۔
دو دن بعدجب اناتولی کی آنکھ کھلی تو وہ بخار میں تپ رہا تھا۔ اسےایسا لگا کہ جیسے
اسنے نے کوئی حسین خواب دیکھا ہے۔ آہستہ
آہستہ اسے سب یاد آنا شروع ہوگیا۔ اسے اپنا قاف سےواپسی کا سفر یاد آیا اور ساتھ
ہی زخمی پری بھی۔ پھر اسےوکٹر کی بات یاد
آئی اور وکٹر کی حالت بھی۔ اب چاہے وہ سپنا تھی یا حقیقت، اناتولی کے لیے اس
بات کی اہمیت نہیں تھی۔ وہ ایک مہم جو انسان تھا اور اپنی باقی زندگی وہ وکٹر کی
طرح نہیں گزارنا چاہتا تھا۔ اسلئے وہ دل پر پتھر رکھ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ بستر کو جھاڑ کر اسنے صاف کیا تو اسے ایک ٹوٹا ہوا سفید پر ملا۔ اناتولی کافی دیر تک پر کو
اپنے ہاتھ میں پکڑے بیٹھا رہا۔ پھر اسنے اس ٹوٹے ہوئے پر کو سنبھال کر اپنے سامان
میں رکھا اور واپس جانے کے لئے پہلی فلائیٹ
کا انتظار کرنے لگا۔
مصنف: ندیم عالم
مذید افسانے: نیچے لنک پر کلک کریں
nice
ReplyDeleteThanks
Deleteایک پری ، جس کا اگرچہ وجود نہیں تھا، نے اناتولی کو کوہِ قاف سر کرادیا ۔ ہمارے خواب اور خواہشیں بھی پریوں کی مانند ہوتے ہیں ۔ اگر ہم صدق دل سے ان کی جستجو میں نکلیں تو نت نئی دنیائیں نظر آسکتی ہیں ۔
ReplyDeleteبہت عمدہ
شکریہ
Deleteبہت عمدہ
ReplyDeleteThanks
DeleteVery interesting Sir. I have read many articles of Javed ch and he is a very fine writer but apka bhi jawab nhn h. Highly impressed by your way of writing. And loved the story too. Thumbs up Sir. 👍🏼👍🏼
ReplyDeleteThanks bro. Your comments help me keep writing.
DeleteWell written, you have kept it as real as possible.
ReplyDeleteThanks.
Deleteایک خوبصورت کاوش۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ کاکیشیا میں بھی ہماری طرح پریوں کی کہانیاں ہیں یا نہیں لیکن رومانیت ایک آفاقی جذبہ ہے جسکی عکاسی بہت بہتر انداز میں کی گئی ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
ReplyDeleteبہت شکریہ سر
DeleteGood story u developed well , one can't quit till the end , u have become good story writer.
ReplyDeleteThanks bro.
DeleteExcellent effort Nadeem, you had a complete grip over the story line ,keep it up.👍👍👍
ReplyDeleteThanks bro.
DeleteAn aproach of author to illusions with delusion is combo effect created a dream story where author has left readears to look for a new episode. Nice . Keep it up
ReplyDeleteThanks
Delete👍👍👍❤️❤️❤️
Delete