نصیب
اڈے پر بیٹھا ہوا فقیر محمد اپنے نصیب کے
بارے میں سوچ رہا تھا۔ کل بھی دیہاڑی نہیں لگی تھی اور آج بھی آدھا دن
انتظار میں گزر چکا تھا۔ بھوکے پیٹ فقیر محمد نے مایوسی کی اتھا گہرائیوں میں
اترنا شروع کر دیا۔ وقت کے دھارے کو الٹا چلاتا وہ بیس سال پیچھے پہنچ گیا۔ دسویں
جماعت کے بورڈ کا امتحان تھا اور فقیر محمد ساری رات بیٹھا انگریزی کے پرچے کی
تیاری کرتا رہا تھا۔ تھوڑی دیر آنکھ لگ گئی تو فجر کی جماعت نکل گئی۔
فقیرمحمد پانچ وقت کا پکا نمازی تھا۔ مولوی صاحب اسکو بہت پسند کرتے تھے اور اکثر
اسے نصیحت کرتے رہتے تھے۔ فقیرمحمد کا والد فوت ہوچکا تھا اور وہ اپنی ماں کا واحد
سہارا تھا۔ اسکی ماں لوگوں کے برتن مانجھ کر اسے اور اسکی چھوٹی بہن کو پڑھا رہی
تھی۔ فقیرمحمد بھی دوسرے بچوں کی طرح پڑھ لکھ کر بڑا انسان بننا چاہتا تھا اسلئے
وہ خوب دل لگا کر پرچوں کی تیاری کررہا تھا۔
دوسرے دن بھی جب فقیر محمد کی فجر کی جماعت
رہ گئی تو ظہرکی نماز کے بعد مولوی صاحب نے اسے روک لیا۔ سب نمازیوں کے جاتے ہی
مولوی صاحب نے اسے اپنے قریب بلایا اورصبح مسجد نہ آنےکی وجہ دریافت کی۔ فقیر محمد
نے ڈرتےڈرتے مولوی صاحب کو بتایا کہ اسکے میٹرک کے پرچے ہورہے ہیں اور رات کو دیر
تک پڑھنے کی وجہ سے صبح اٹھنے میں کوتاہی ہو جاتی ہے۔ مولوی صاحب کچھ دیر تو چپ
کرکے اسکو گھورتے رہے۔ اس دوران فقیر محمد دَم سادھے بیٹھا رہا۔ مولوی صاحب اسکے
والد کی جگہ تھے۔ وہ انکی بہت عزت کرتا تھا اور سچی بات ہے کہ وہ ان سے ڈرتا بھی
بہت تھا۔ مولوی صاحب نے صرف ایک بار سبق یاد نہ کرنے پراسکی سوٹی سے خوب
پٹائی کی تھی۔ وہ اس وقت کوئی پانچ چھ سال کا تھا لیکن وہ دن اور آج کا دن، مولوی
صاحب کے سامنے فقیر محمد کی سیٹی گم ہو جاتی تھی۔ فقیرمحمد کی حالتِ زار سے محزوز
ہوتے ہوئے کچھ دیر بعد مولوی صاحب گویا ہوئے:
"تیرے نصیب میں جو ہوگا وہ تجھے مل جائے
گا فقیرے۔ تو کیوں خوار ہوتا ہے۔ زندگی تو خراب کر ہی رہا ہے،اب کیا عاقبت بھی
بگھاڑے گا !"
مولوی صاحب کی بات فقیرمحمد کے دل میں
تیرکی طرح جا کر لگی۔ اسنے سوچا کہ اللہ نے جو اسکی قسمت میں لکھ دیا ہے وہ اسکو
مل ہی جانا ہے تو وہ اتنی محنت کیوں کرے۔ اسی دن سے اسنے اپنا ڈیرہ مسجد میں ڈال
لیا اور مولوی صاحب کی خدمت گزاری میں اپنی جنت تلاش کرنے لگا۔ اسکی ماں بہت خفا
ہوئی۔ اس نےمولوی صاحب کے گھر جا کر انکی بہت منت سماجت کی کہ وہ فقیرے کو کم از
کم میٹرک کا امتحان تو دے لینے دیں، اسکے بعد وہ خود اسے انکے در پر چھوڑ جائے گی۔
لیکن مولوی صاحب نے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ فقیرا اپنی مرضی کا خود مالک ہےاور
فقیرمحمد کے سامنے اسکی ماں کو اپنے گھر سے نکال دیا۔ اس دن سے فقیرے کو اپنے نصیب
کی روٹی مولوی صاحب کے گھر سے ملنا شروع ہو گئی۔
سہ پہر ہو چکی تھی اوراس وقت کسی کام کا ملنا
مشکل ہی تھا۔ پچھلے تین دن کی ہڑتال کی وجہ سے کوئی کام تھا ہی نہیں۔ آج فقیرے کو
کام ملنے کی پوری امید تھی لیکن شاید اسکی قسمت ہی خراب تھی۔ فقیرے کی جیب میں اس
وقت صرف تیس روپے پڑے تھے۔ صبح آتے ہوئےاسنے پانی کا ایک گلاس پیا تھا۔
ناشتے میں اورکچھ تھا بھی تو نہیں۔ رات کی بچی ہوئی آدھی روٹی پڑی تھی جو
اسکی بیوی نے اپنے آٹھ سالہ بچے کو کھلا کراسے اسکول بیج دیا تھا۔ فقیرمحمد
نے اپنی بیوی کو قسم دے رکھی تھی کہ جو مرضی ہو جائےانہوں نے بچےکو ضرور
پڑھانا ہے اور فقیر محمد کی بیوی ہرحالت میں اپنی قسم نبھا رہی تھی۔
اب بھوک برداشت سے باہر ہوتی جا رہی تھی۔ کل
رات کو بھی اس نے آدھی روٹی کھا کر باقی آدھی روٹی اپنے بیٹے کے صبح کے
ناشتے کے لئے چھوڑ دی تھی۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اسکی بیوی نے اپنی پوری روٹی
چھپا کر آج دن کے لئے رکھ چھوڑی ہے۔ فقیرمحمد نے جیب میں ہاتھ ڈال کر دس دس
کے تین نوٹوں کو محسوس کیا تو اسکے پیٹ نے احتجاج شروع کر دیا۔ لوستی آنتوں کے درد
کو صرف وہ ہی جان سکتا ہے جس نے دو دن میں صرف آدھی روٹی کھائی ہو۔ فقیر محمد نے
اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنی بیوی کے بارے میں سوچا جس نے دو دن میں یقیناً
کچھ بھی نہیں کھایا تھا۔
فقیر محمد کی بیوی اسکی
خالہ ذاد اور بچپن کی منگ تھی۔ اسکے خالو نے شادی کے لئے شرط رکھی تھی کہ جب تک وہ
کچھ کما کرگھر چلانے کے قابل نہیں ہوگا اس وقت تک وہ اپنی بیٹی اسکے ساتھ نہیں بیاہ
سکتے۔ فقیرمحمد نے دس سال مولوی صاحب کی خدمت کی اور جب اپنی شادی کا دو چار بار
ذکر کیا تو مولوی صاحب نے اس کو باعزت طریقے سے اپنے گھر سے یہ کہہ کر رخصت
کر دیا کہ وہ اسکی بیوی کا اور پھر اسکے بال بچوں کا پیٹ نہیں پال سکتے۔ ویسے بھی
اب انکے پاس ایک اور خدمتگار بھی تھا۔ فقیرمحمد اپنی تمام جوانی مولوی صاحب کے پاس
گزار چکا تھا۔ کوئی ہنر تو وہ جانتا نہیں تھا اور نہ ہی وہ پڑھا لکھا تھا اس لئے
سوائے مزدوری کے اور کوئی چارہ نہ بچا۔ اپنے نصیب کا کمانے کے لئے اسنے اڈے پر
گاڑیوں سے سامان اتارنے چڑھانے کا کام شروع کر دیا۔ جس دن کام مل جائے تو اس دن
تین چار سو روپے بن جاتے تھے ورنہ سارا دن انتظار میں ہی گزر جاتا۔ اپنے والد کو
وہ ہر وقت دعائیں دیتا تھا جو دو مرلے کا ایک گھر بنا کر اس دنیا سے گئے تھے۔ کچھ
کمانا شروع کیا تو بیاہ بھی ہو گیا۔ اسکی شادی کے بعد اسکی ماں جلد ہی اپنی بیٹی
کے فرض سے سبکدوش ہوتے ہی اپنےخالقِ حقیقی سے جا ملی۔ اسکے نصیب میں ایک بیویتھی
جو بہت اچھی ملی تھی جس نے ہر حال میں اسکا ساتھ دیا تھا۔ اب تو ان کا ایک
پیارا سا بیٹا بھی تھا اور یہ بیٹا ہی ان دونوں کی آخری امید تھا۔ دونوں میاں بیوی اپنے
نصیب کا اپنے بیٹے پر ہی لگا دیتے تھے۔
بھوک جب برداشت سے بلکل باہر ہو گئی تو اس کا
نصیب پر سے اعتبار اٹھنے لگا۔ وہ سوچ رہا تھا بھلا اس دنیا کا خالق اتنا ناانصاف
کیسے ہو سکتا ہے۔ ایک طرف تو کسی کے نصیب میں اربوں روپے لکھ دئیے ہیں اور دوسری
طرف اسکے نصیب میں چند سو، وہ بھی کبھی ملتے ہیں کبھی نہیں۔ یہی سوچ کر اسنے قسم
کھائی تھی کہ وہ اپنے بیٹے کو بہت پڑھائے گا اور اسکو اپنا نصیب خود بنانے کا موقع
ضرور دے گا۔ پر اکثر یہ سوچ کر کہ کہیں وہ کفر کا مرتکب تو نہیں ہو رہا وہ اللہ سے
بہت استغفار بھی کرتا تھا۔
شام
ہونے کو آگئی اوراب کام ملنے کی کوئی امید نہیں تھی۔ فقیر محمد نے اپنی چادر
اٹھائی اوراپنے گھر کو روانہ ہو گیا۔ جیب میں موجود تیس روپوں کواس نےایک دفعہ پھر
سے محسوس کیا۔ بھوک کی انتہا نے نصیب کے اعتقاد کو مذید متزلزل کر دیا تھا۔ اسنے
اپنے ساتھ کیا ہوا اپنے بچے کو پڑھانے کا وعدہ دہرایا اور اپنی گلی کی نکڑ کے
تندور سے اپنے نصیب کی تین روٹیاں لے کر گھر کی جانب تیز قدموں سے چل پڑا۔
مصنف:
ندیم عالم
مذید افسانے: نیچے لنک پر کلک کریں
Good effort bro.
ReplyDeleteنصیب ایک ہارے ہوئے جواری کی منتطق ہے۔
DeleteThe story signifies that we have to work hard to get what is in our destiny. Good effort.
ReplyDeleteThanks for correctly understanding the message.
DeleteWe must try at all costs Allah looks at our wills and efforts He can change what's written in the fate too.
ReplyDeleteYes. That is exactly the lesson from this story that we must work hard to get our destiny. And as rightly pointed out by you and Iqbal also said that....
Deleteاس قوم کو تقدیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد
Great job
ReplyDeleteThanks bro.
ReplyDeleteعربوں کی بجاۓ اربوں .....
ReplyDeleteAn excellent expression of confined mind . As believed by people that Naseeb ( destiny) is some thing uncontrolled by people . Such believes make one land in to same situations of confined thaught process. Whereas fact is to do your best and get results is destiny.Allah pak is granter.
Thanks for lovely comments.
Deleteانسان اپنا نصیب خود بناتا ہے ۔ یہ کہنا کہ لکھنے والے نے تقدیر لکھ دی ہے لہذا ہمیں اب ہاتھ پیر نہیں ہلانے چاہیئں، سراسرغیر منطقی ہے ۔ اللہ نے انسان کے اختیار میں صرف کوشش ہی لکھی ہے۔ اور اسے کوشش کے مطابق ہی ملے گا۔ بھلے ہم انسانوں سے کٹ کر کسی غار میں بیٹھ جائیں اور عبادت کرنے لگ جائیں، رزق پھر بھی آسمان سے نہیں گرے گا ۔ خیر کے حصول اور برائی سے نجات کے لیے جدوجہد خالق کا اصول ہے جس سے روگردانی اختیار کرنے والا ہمیشہ اپنے نصیب کو کوستا رہتا ہے ۔
ReplyDeleteبہت شکریہ۔ اس افسانے کا مقصد بھی یہی تھا جو آپ نے بیان کر دیا۔
Delete"اور بےشک انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے"
ReplyDeleteلگتا ہے مولوی صاحب نے قرآن کی یہ آیت نہیں
پڑھی تھی
Everything you get is somehow related to your effort. Insan apni qismat khud bnata h. And yes education is the key.
Nice short story to convey a very fine msg Sir. Again choice of words and way of describing the sitautions was too good.
Thanks for nice comments. Fate is often misperceived as a permanent thing already destined for each individual. If that was the case then the essence of jaza and saza is lost. Then the dua becomes meaningless. Anyway thanks for understanding the message correctly.
Delete